ہیٹ ویو: کراچی ’حرارت کا جزیرہ‘ کیسے بنا اور کیا اس کا درجہ حرارت کم کرنا ممکن ہے؟
تقریباً سو سال پرانا منظر ہے۔ کراچی میں پرندوں کے جھنڈ، گھومتے پھرتے آوارہ جانور، ٹم ٹم اور بگھیوں میں بندھے گھوڑے سب ’پیاﺅ‘ یعنی تالاب سے پانی پی رہے ہیں۔ ان پیاﺅ پر گھنے درختوں کا سایہ بھی موجود ہے، جن کے نیچے یہ جان دار دھوپ سے بچ کر سستا بھی رہے ہیں۔
دوسرا منظر کوئی سو سال بعد 2015 کا ہے جب ہم سب ’ترقی یافتہ‘ہو چکے ہیں۔ سڑکوں پر موجود گداگر، بے گھر افراد اور دیگر پیدل چلنے والے ہانپ رہے ہیں، نڈھال ہو کر گر رہے ہیں۔
سورج سوا نیزے پر کھڑا ہے۔ دور دور تک نہ کوئی سایہ دار درخت ہے اور نہ کہیں پینے کا پانی۔ چاروں جانب بے ہنگم ٹریفک کا دھواں، اڑتی ریت، جسموں کو پگھلاتی دھوپ اور گرمی سے غش کھا کر گرتے انسان اور پھر سڑکوں پر دوڑتی ایمبولینس جن کے سائرن سے فضا گونج رہی ہے۔
یہ دونوں منظر کراچی کے ہیں۔ سو سال میں کراچی نے خوب تر سے بدتر کا یہ سفر کیسے طے کیا، یہ ایک لمبی روداد ہے۔
کچھ دہائیوں پہلے تک بھی کراچی کی خوبصورتی برقرار تھی۔ اس شہر دلربا کا شمار ہرے بھرے صاف ستھرے شہروں میں کیا جاتا تھا۔ اس کی سڑکیں روز دھلا کرتیں اور سڑکوں کے کنارے گھنے اور بلند اشجار جھومتے رہتے۔ اس کا موسم، اس کی تو کیا ہی بات تھی۔
تمام عمر تدریس کے شعبے سے وابستہ بزرگ خاتون شاعرہ پروین شہباز کے مطابق: ’اس شہر کے موسم کی تو مثالیں دی جاتیں۔ کہا جاتا کہ کراچی کے موسم اور محبوب کے مزاج کا کچھ بھروسا نہیں۔ جی ہاں کراچی کے موسم ایسے ہی تھے، ابھی تیز دھوپ تھی اور ابھی کالے بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ لیا، ہلکی ہلکی بوندا باندی بھی شروع ہو گئی۔ خصوصاً جون جولائی اگست میں تو کراچی کے موسم ملکہ کوہسار مری کے موسموں کا مقابلہ کرتے۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی تو گاہے بگاہے تیز بارش بھی ہو جاتی۔ مجھے یاد ہے اندرون سندھ سے ہمارے رشتے دار ان مہینوں میں موسم کے مزے لوٹنے کراچی آجاتے کیونکہ وہاں شدید گرمی ہوتی۔‘
کراچی کے ایک شہری سید انور فراز اپنی یادیں کچھ اس طرح تازہ کرتے ہیں: ’ہم نے پچپن میں جس کراچی کو دیکھا وہ بہت سرسبز تھا۔ اس وقت پرانے اور گھنے درخت ہر جگہ موجود تھے۔ بندر روڈ پر نمائش، گرو مندر اور ٹاور تک دونوں جانب برگد، نیم، پیپل زیادہ سے زیادہ دس سے بیس گز کے فاصلے پر لگے ہوئے تھے۔ یہ درخت اتنے گھنے اور سایہ دار تھے کہ لوگوں نے ان کے نیچے اپنی دکانیں لگا رکھی تھیں (کچھ دکانیں آج بھی موجود ہیں)۔ صدر میں بھی فٹ پاتھوں پر درخت اور ان کے نیچے دکانیں تھیں۔ صدر سے نکل کر فریئر ہال کی طرف جاتے تو وہ گرین ٹاپ علاقہ تھا۔‘
ناظم آباد کے بزرگ حمید اللہ اور ان کی بیگم ٹھنڈی آہ بھر کر اس پرانے کراچی کو ایسے یاد کرتے ہیں: ’اس علاقے میں چھوٹا بڑا کوئی گھر ایسا نہ ہوتا جس میں دو چار درخت نظر نہ آتے۔ ان اشجار میں املی، پیپل، نیم، املتاس، سوہانجنا، چمپا، برگد، لیگنم، آم، امرود، جنگل جلیبی، چیکو، پپیتا، جامن، شریفہ اور گل مہر جگہ جگہ جھومتے نظر آتے۔ درختوں کے علاوہ آنگن میں کچھ حصہ کچا چھوڑا جاتا، وہاں کیاریوں میں سبزیاں اگایا جاتیں۔ درختوں کا پھل اور سبزیاں محلے دار مل بانٹ کر کھاتے۔ ان دنوں اڑوس پڑوس کے لوگ خاندان جیسے ہوتے تھے۔‘
مصنف سعید جاوید اپنی کتاب ’ایسا تھا میرا کراچی‘ میں لکھتے ہیں کہ اس دور میں کم از کم صدر کے علاقے کی تمام بڑی اور مرکزی سڑکیں صبح صبح دھلا کرتی تھیں۔ پانی کے ٹینکر آتے اور سڑک پر پانی گراتے جسں سے خاکروب جھاڑو سے سڑکوں کو اچھی طرح دھو کر چمکاتے اور یہ سارا کام کاروبار زندگی شروع ہونے سے قبل ہی پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تھا۔‘
پرانے کراچی میں جانوروں تک کا خیال رکھا جاتا اور ان کے پینے کے لیے شہر میں 30 پیاﺅ موجود تھے جسے ہم جانوروں کی سبیلیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ پیاﺅ جنھیں انگریزی میں واٹر ٹروف بھی کہا جاتا ہے، پاکستان چوک، گرومندر، لی مارکیٹ، کھارادر، ڈاؤ میڈیکل کالج اور گارڈن میں گھنے سایہ دار درختوں کے نیچے تعمیر کیے گئے تھے۔
وقت آگے بڑھا اور سب کچھ بدلنے لگا۔ لالچ اور ہوس نے انسان کو یوں گھیرا کہ اس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے گلشن کو اجاڑ لیا۔ کراچی کے سرسبز درخت کٹنے لگے، خالی میدان اور پارکوں پر قبضے کا چلن عام ہوا۔ تجارتی سرگرمیاں پھیلنے لگیں۔ کولتار کی سیاہ سڑکیں کالے ناگ کی طرح شہر بھر میں پھیل گئیں۔
پتھر اور مٹی کی جگہ سیمنٹ کی بلند و بالا عمارات فلک کو چھونے لگیں۔ بڑے پلاٹوں کی تو بات ہی چھوڑیں ایک سو بیس گز کے چھوٹے پلاٹ پر بھی کئی منزلہ عمارات تعمیر ہونے لگیں۔
ایک طرف کراچی اپنی بربادی کی داستاں لکھ رہا تھا تو دوسری جانب دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی نامی بلا نے اپنے پر پھیلائے اور کراچی اور اس جیسے دیگر شہروں نے اس بلا کو اڑ کر گلے لگایا۔
پرانی عمارات پتھر اور مٹی کی ہوا کرتی تھیں۔ ان کے اندر درازیں ہوتی جن سے ہوا اور ٹھنڈک گزر سکتی۔ یہ عمارات گرمیوں میں ٹھنڈی اور سردیوں میں گرم رہتی لیکن سیمنٹ سے بننے والی بلند و بالا عمارات اس کے برعکس تھیں۔
ان عمارات نے ایک تو سمندری ہوا کا راستہ روک دیا اور وہ پروائی جو کراچی کی پہچان تھی اس کی آمد و رفت بند ہوئی تو دوسری جانب سیمنٹ کے ڈھانچے بہت زیادہ گرمی جذب کرنے لگے اور یوں شہر کا درجہ حرارت بڑھتا چلا گیا۔
درختوں کی کمی نے مزید بدترین اثرات مرتب کیے۔ 2015 میں پڑنے والی قیامت خیز گرمی (ہیٹ ویو) کراچی کے شہریوں کے لیے کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں تھی جس میں سیکڑوں شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہزاروں بیمار ہوئے۔ سایہ دار درختوں کی عدم موجودگی اور شہر میں کوئی ایسی نہر، ندی نالا یا پانی کا تالاب نہیں تھا جہاں لوگ اس گرمی میں خود کو ٹھنڈا کرسکتے۔
ایسے میں پہلی بار لوگوں نے ’اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ‘ یا حرارت کے گرم جزیروں کے بارے میں سنا اور وائے افسوس کہ کراچی کا وہ موسم جس کی مثالیں محبوب کے مزاج سے دی جاتیں، ہیٹ ویوز کے حوالے سے دنیا بھر کی شہہ سرخیوں کی زینت بنا۔
حرارت کے گرم جزیرے
ایسے علاقے جہاں سیمنٹ کی بلند و بالا عمارات قریب قریب ہوں وہاں یہ سیمنٹ کے ڈھانچے سارا دن سورج سے حرارت اپنے اندر جذب کرتے رہتے ہیں اور پھر جب سورج ڈھل جاتا ہے تو یہ حرارت باہر خارج کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ حرارت ارد گرد پھیلنے لگتی ہے اور ہوا کو گرم کر دیتی ہے اور اب اگر ہوا کی نکاسی کا راستہ نہ ہو، عمارتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوں تو یہ حرارت وہیں پھنس جاتی ہے اور اس علاقے کا درجہ حرارت دیگر علاقوں سے کم از کم دس سے بارہ ڈگری بڑھ جاتا ہے۔
سیمنٹ وہ عنصر ہے جو حرارت جذب کر کے عمارات کو ایک تپتی ہوئی بھٹی یا تندور کی شکل دے دیتا ہے۔ شہروں میں ہیٹ ویوز کے اسباب میں سیمنٹ کی عمارات ایک بڑا سبب ہیں۔ ان ہی سے ’ہیٹ آئی لینڈ‘ تشکیل پاتا ہے۔ اب کراچی کی عمارات کنکریٹ کا وہ جنگل بن چکی ہیں جس نے رہائشیوں پر سانسیں تنگ کر دی ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمنٹل سٹڈیز سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال شمس نے اس حوالے سے 2019 میں ایک ریسرچ کی تھی۔ یہ تحقیق رنگوں اور مختلف تعمیراتی اشیا کے درجہ حرارت سے تعلق پر کی گئی تھی۔
ڈاکٹر ظفر کا کہنا ہے کہ ہم نے سیاہ، سرخ، سفید، سبز اور ہلکے پیلے رنگ والی سطح پر کام کیا۔ اس تحقیق سے انکشاف ہوا کہ سب سے زیادہ درجہ حرارت سیاہ رنگ کا تھا گویا یہ سطح سب سے زیادہ حرارت جذب کرتی ہے۔ دوسرے نمبر پر سرخ رنگ تھا جو سیاہ سے تھوڑا ہی کم تھا۔ ہلکے رنگوں کا درجہ حرارت بتدریج کم ہوتا چلا گیا اور سب سے کم سفید رنگ کا تھا یعنی یہ رنگ سب سے کم حرارت جذب کرتا ہے۔
اسی پروجیکٹ میں مختلف تعمیراتی اشیا کا بھی جائزہ لیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر تعمیراتی اشیا یعنی سیمنٹ، کنکریٹ، لوہا اور سڑکوں کا کولتار سبھی گہرے رنگوں کے ہیں جو حرارت زیادہ جذب کرتے ہیں۔
درجہ حرات کو بڑھانے کا ایک بڑا سبب سیمنٹ کی تعمیرات کے علاوہ شہر میں پھیلی ہوئی کولتار کی سیاہ سڑکیں بھی ہیں کیونکہ سیاہ رنگ زیادہ حرارت جذب کرتا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق شہر کے وہ گنجان علاقے جہاں بلند و بالا، ایک دوسرے سے جڑی عمارات واقع تھیں اس علاقے کا درجہ حرارت دیگر علاقوں سے کم از کم 10 ڈگری زیادہ تھا اور وہاں ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ موجود تھا۔
دنیا بھر میں تعمیراتی صنعت گرین ہاﺅس گیسوں کے چالیس فیصد اخراج کی ذمے دار ہے اور اس میں سیمنٹ کا حصہ آٹھ فیصد ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس کا ادراک کر چکے ہیں اور وہ بتدریج سیمنٹ کے متبادل پر کام کر رہے ہیں۔
معروف آرکیٹیکٹ اور پلانر فرحان انور کے مطابق ’اگر عمارات سے سیمنٹ، لوہے اور شیشے کا استعمال ختم کر دیا جائے تو ہر گھر ماحول دوست اور غریب طبقے کی قوت خرید میں آسکتا ہے لیکن اس کے لیے ایک قومی تعمیراتی پالیسی کی ضرورت ہو گی۔ اگر قانون بن جائے گا تو ایسے متبادل بھی زیر غور آئیں گے جن کا گیسی اخراج کم ہو گا۔ دنیا اسی طرف جارہی ہے اور ہمیں بھی جانا ہو گا۔ ایسے متبادل میں مٹی، چونا، بانس، کوئلے کی راکھ اور ہیمپ( بھنگ کا پودا) کے درخت کے اندر موجود فائبر وغیرہ دنیا میں عام استعمال ہو رہے ہیں۔‘
عام لوگ خودکو کیسے محفوظ رکھیں؟
شہروں میں تعمیر شدہ عمارات تو گرائی نہیں جاسکتیں اور نہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تحت گرمی کو روکنے کا کوئی آسان راستہ ہے مگر ماہرین کے مطابق گرم موسم کے اثرات کم کرنے اور محفوظ رہنے کی تدابیر ضرور موجود ہیں۔
توفیق پاشا موراج شجرکاری اور باغبانی کے حوالے سے ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ وہ بھی ڈاکٹر ظفر اقبال شمس کی رنگوں کے حوالے سے رائے سے متفق نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’بہت کم پیسوں میں آپ اپنے گھر کو ایک ماحول دوست گھر بنا سکتے ہیں۔ چھتوں پر چونا پھیر کر سفید رنگ کر دیں، ایک فٹ اوپر کوئی چادر باندھ دیں تاکہ دھوپ رک جائے مگر ہوا گزرتی رہے۔ دیواروں پر کوئی بھی ہلکا رنگ کریں اور ان دیواروں پر بیلیں چڑھا دیں جس کے لیے زیادہ جگہ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔‘
’ان چھوٹے چھوٹے لیکن پراثر اقدامات سے آپ اپنے گھر کے درجہ حرارت میں 8 سے 10 ڈگری کا فرق پیدا کر سکتے ہیں۔ جہاں بھی جگہ ملے ایسے درخت لگائیں جو بلند ہوں اور جن کی چھتری گھنی ہو تاکہ ہوا بھی ملے اور دھوپ سے بچاﺅ ہو سکے۔ کونو کارپس جیسی جھاڑیوں سے گریز کریں جن کی قطاریں ہوا کے سامنے دیوار بن گئی ہیں۔ کراچی پر تو اللہ کا خاص کرم ہے کہ یہاں نو دس ماہ سمندری ہوا چلتی ہے۔ اس ہوا کے راستے میں بلند عمارتیں اور کونو کارپس جیسے درخت رکاوٹ بن گئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’گرمی کی شدت میں چھتری اور چھجے والی ٹوپی (کاﺅ بوائے نما) کا استعمال کریں، آخر جن ممالک میں تیز بارشیں ہوتی ہیں تو وہ اپنے بچاﺅ کے لیے یہ سب کرتے ہی ہیں نا تو ہم دھوپ سے بچاﺅ کے لیے ان اشیا کا استعمال کیوں نہیں کرسکتے۔‘
توفیق پاشا کے خیال میں کراچی شہر کی بربادی کے اصل قصوروار بلڈرز اور آرکیٹکٹ ہیں۔ ’یہ عمارتیں ان کا گناہ ہیں جن کا خمیازہ معصوم شہری بھگت رہے ہیں۔ انھوں نے انسانوں کی بجائے صرف پیسوں کے بارے میں سوچا۔ اب سخت قانون سازی کی ضرورت ہے کہ جو بھی عمارت بنے وہ ماحول دوست ہو ورنہ ان کے لائسنس معطل کیے جائیں۔‘
شجر کاری کے ضمن میں ڈاکٹر ظفر اقبال شمس سڑکوں کے کنارے گھنے درخت لگانے کی تجویز دیتے ہیں تاکہ ان درختوں کی چھاﺅں سڑکوں کے سیاہ رنگ کو ڈھانپ لے اور وہ حرارت جذب نہ کرسکے۔
اب شہر میں جنگل ممکن ہے
شہزاد قریشی، پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور ایک ماحول دوست شہری ہیں جنھوں نے کلفٹن کراچی میں تین ایکڑ پارک پر شہری جنگل (اربن فاریسٹ) بنا کر شہریوں کو ماحول کی بہتری کی ایک نئی راہ سجھائی ہے۔ اس تین سالہ نوزائیدہ جنگل میں آپ دسیوں پرندوں، تتلیوں،شہد کی مکھیوں اور بہت سی حیاتی گونا گونی کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جنگل کے اندر اور باہر کے درجہ حرارت میں پانچ سے چھ ڈگری کا واضح فرق دیکھا گیا ہے۔
ایسے بہت سے پارک کراچی کے ماحول کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دو کروڑ سے زائد کی آبادی میں ایسے کتنے شہری ہیں جن کے گھر ایکڑوں پر مشتمل ہیں؟
شہزاد کا کہنا ہے کہ ’ایکڑوں کی ضرورت نہیں اگر آپ کے پاس سو گز یا اس سے بھی کم صرف پچاس گز زمین ہو تو بھی ایک چھوٹا سا اربن فاریسٹ اگایا جاسکتا ہے جس پر خرچ بھی بہت کم ہو گا۔‘
وہ کراچی میں ایسے چھوٹے چھوٹے مزید شہری جنگل اگا چکے ہیں۔ چند جنگل مسجدوں کے باہر بھی لگائے گئے ہیں جن کے لیے وضو کا استعمال شدہ پانی ہی دوبارہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان جیسے غریب ملک میں موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کا صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے مگر ماہرین کے بتائے ہوئے یہ آسان طریقے یعنی رویہ تبدیل کرنے سے ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ کے ڈراﺅنے خواب میں زندگی کو سہل بنا سک