بحیرۂ مردار کو مردار کیوں کہتے ہیں؟اس میں اتنا نمک کہاں سے آیا؟
زمین پر سب سے نیچی جگہ بحیرۂ مردار (Dead Sea) کا ساحل ہے۔ عربی میں اسے البحر المیت کہا جاتا ہے۔ یہ سطح سمندر سے یہ 430 اعشاریہ پانچ میٹر (1412 فٹ) نیچے ہے۔
صدیوں پہلے وجود میں آنے والا بحیرۂ مردار، دنیا کے دیگر سمندروں کے مقابلے میں تقریباً نو گنا زیادہ نمکین ہے اور اس میں نمکیات اور معدنیات کی کثیر تعداد کی وجہ سے اس کا پانی مختلف نظر آتا ہے اور دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ زیتون کے تیل کو ریت کے ساتھ ملایا گیا ہو
یہ اردن، فلسطین اور اسرائیل کے درمیان واقع ایک سمندر ہے اور یہ ایسا مقام ہے کہ جہاں بارش اور آس پاس سے زمین کے اندر اور اوپر سے پانی نیچے کی طرف آتا ہے۔ یہاں پانی آتا تو ہے لیکن یہاں سے کہیں جاتا نہیں۔ مطلب یہ کہ جھیل نما ہے جو ایک طرح سے چاروں طرف سے بند ہے اور اس پانی کا مقدر صرف بخارات بن کر اڑنا ہی ہے۔ صدیوں سے پانی کے یوں اوپر اڑنے کی وجہ سے نیچے صرف معدنیات اور نمکیاتی مادہ ہی رہ گیا ہے جو صدیوں کے اس عمل سے اتنا نمکین ہو چکا ہے کہ اس میں جاندار چیزوں جیسے کہ مچھلیاں یا پودوں کا رہنا ناممکن ہے۔ ہاں کئی ایسے بیکٹیریا ضرور ہیں جو ہر طرح کا ماحول برداشت کر لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اسے بحیرۂ مردار کہتے ہیں یعنی مری ہوئی چیزوں کا سمندر یا وہ سمندر جہاں کوئی چیز زندہ نہیں رہ سکتی۔ پانی میں نمک کی کثافت کے حوالے سے دنیا کا سب سے گہرا مقام بھی ہے.
نمکیات اور معدنیات کی بہتات کی وجہ سے انسان قدرتی طور پر اس کی سطح پر ڈوبے بغیر تیر سکتا ہے۔
سدوم وعمورہ ،قوم لوط کے اُن مقامات جہاں عذاب ہوا تھاکو کہا جاتا ہے۔ قوم لوط کے مسکن شہر سدوم اور عمورہ بحر مردار کے ساحل پر واقع تھے اور قریش مکہ اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے ان آبادیوں کی ہلاکت کا زمانہ جدید تحقیق کے مطابق 2061 ق م ہے
اس علاقے میں سیاحت کے کاروبار سے منسلک اور
اسرائیل کے ارضیاتی سروے کے ڈاکٹر گیدی نے ساحل سے دور ایک مقام پر کھڑے ہو کر بتایا کہ جب وہ 18 برس کے تھے تو اس وقت پانی یہاں تک تھا اور یہ کوئی پانچ سو برس یا ایک ہزار برس پرانی بات نہیں ہے لیکن اس وقت پانی یہاں سے دو کلومیٹر دور ہے۔
بحیرۂ مردار کی سطح میں کمی کی وجہ دریاوں میں باندھے جانے والے ڈیم کے ساتھ ساتھ علاقے میں تازہ پانی کے وسائل میں بھی کمی ہے جس میں دریائے اردن کا شمالی حصہ بحیرۂ طبريہ میں گرتا ہے جبکہ اس کا جنوبی حصہ بحیرۂ طبريہ کے اوپر سے گزرتا ہوا بحیرۂ مردار کا حصہ بن جاتا ہے۔
اسرائیل نے دریائے اردن کے بحیرۂ طبريہ میں جانے والے جنوبی حصے پر ڈیم بنا رکھا ہے اور یہاں سے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اسرائیل اس کو پانی کے سٹریٹیجک اثاثے کے طور پر دیکھتا ہے اور اس میں پانی کے ذخیرے میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ یہ بحیرۂ احمر کے پانی کو صاف کر کے استعمال کر رہا ہے۔
دریا کے سکڑنے کی وجہ سے اس علاقے میں تیزی سے گڑھے بھی پڑ رہے ہیں اور اس وقت ایسے گڑھوں کی تعداد ساڑھے پانچ ہزار کے قریب ہے۔
حال ہی میں بحیرۂ مردار کو سوکھنے سے بچانے کے لیے ایک طویل پائپ لائن کے ذریعے بحیرۂ احمر سے پانی بحیرۂ مردار میں ڈالنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے اور امریکہ اس کے لیے کچھ مالی وسائل بھی مہیا کرے گا۔ اس مصنوبے کے تحت فلسطین اور اسرائیل کو پینے کا صاف پانی بھی دستیاب ہوگا۔
اس منصوبے کے تحت بحیرۂ مردار میں پانی ڈالنے سے پہلے اس میں سے نمک کو نکالا جائے گا تاہم تکنکی، مالی اور سیاسی مشکلات کی وجہ سے مستقبل قریب میں اس منصوبے پر کام شروع ہونے کی توقع نہیں ہے اور اس صورتحال میں بحیرۂ مردار کے سکڑنے کا عمل آئندہ کئی برسوں تک جاری رہے گا۔
یہ آہستہ آہستہ سکڑ تو رہا ہے
لیکن یہ مکمل طور پر خشک نہیں ہو گا کیونکہ جیسے جیسے اس کی پانی کی سطح میں کمی ہو رہی ہے، اس کی کثافت اور نمکیات میں اضافہ ہوتا جائے گا اور بلآخر ایک ایسے مقام پر پہنچ جائیں گی جہاں اس کا پانی اتنا وزنی ہو جائے گا کہ بخارات کی شکل میں تبدیل نہیں ہوگا۔ تو ہو سکتا ہے کہ یہ سکڑ کر بہت چھوٹا رہ جائے لیکن مکمل طور پر غائب نہیں ہو گا۔ اس میں موجود پانی اطراف کی فضا سے پانی کو جذب کو کرنا شروع کر دے گا اور یہ خطرے میں اس قدرتی خزانے کا خود ساختہ حفاظتی نظام ہو گا۔
یہ بحیرۂ مردار کے مرنے کے عمل کی کہانی کا اختتام نہیں ہے بلکہ یہ ایک حوصلہ افزا کہنا ہے کہ ایک ایسے خطے میں قدرت اپنے تحفظ کا راستہ کیسے تلاش کرتی ہے جہاں بسنے والے انسان قدرتی وسائل کی ہمیشہ سے قدر یا احتیاط نہیں کرتے۔
بحیرۂ مردار کی معاشی قدر کا اندازہ لگائیں کہ اردن اور اسرائیل دونوں ممالک اس نمکین جھیل کی معدنیات سے کاسمیٹک مصنوعات تیار کر کے برآمد کرتے ہیں۔ بحیرۂ مردار کی ایک ساحلی پٹی فلسطین کے غرب اردن کے ساتھ لگتی ہے لیکن یہاں پر اسرائیل کے قبضے کی وجہ سے مستقبل میں فلسطین کے اس سمندر کی منفرد معدنی دولت سے خاصا فائدہ حاصل کر سکے گا۔
اس سمندر کی تاریخی طور پر بڑی اہمیت رہی ہے جس میں مصری ملکہ قلو پطرہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بحیرۂ مردار کے علاقے کی خوبصورتی کی وجہ سے یہاں پر خوبصورتی کے لیے تیار کردہ مصنوعات کا استعمال کرتی تھیں جب کہ رومی سلطنت نے جب اس علاقے پر قبضہ کیا تو یہاں پر نمک کے وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھایا کیونکہ اس وقت نمک پرتعیش چیز سمجھا جاتا تھا اور اسے بطور کرنسی بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
بحیرۂ مردار کو تاریخ میں کئی ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے اور اس ’بند سمندر‘ کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔ رومن دور میں اسے سالٹ سی، یعنی نمک کا سمندر بھی کہا جاتا تھا۔ سالٹ لاطینی زبان کا لفظ ’سال‘ ہے جو کہ نمک کا کیمیائی نام بھی ہے۔
بحرِ مردار یا نمک کے سمندر کی رومیوں کی نظر میں اتنی زیادہ اہمیت تھی کہ انھوں نے اس سمندر پر پہرے لگا رکھے تھے کہ کوئی یہاں سے نمک نہ لے جائے۔ اور وہ کام کرنے والوں کو اجرت بھی نمک کی صورت میں دیا کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انگریزی کا لفظ ‘سیلری’ یعنی تنخواہ بھی ’سال‘ سے ہی نکلا ہے۔
سائنس قرآن کے حضور میں
قرآن مجید اور جدید سائنس کی ثابت شدہ حقیقتوں میں بے مثال مطابقت پائی جاتی ہے ۔ جو قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی بہترین دلیل ہے۔
سطح زمین پر سب سے پست ترین مقام اور رومیوں کی فتح
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے :
(الم oغُلِبَتِ الرُّ وْمُ o فِیْ اَدْنَی الْارْضِ وَہُمْ مِّنْ م بَعْدِ غَلَبِھِمْ سَیَغْلِبُوْنَ o ایت،1,2,3
”الم۔ روم قریب کی (نشیبی) سرزمین میں مغلوب ہوگئے۔ تاہم وہ مغلوب ہونے کے چند ہی سال بعد پھر غالب آ جائیں گے”۔
اللہ تعالیٰ نے سورة روم کی ابتداء میں ہی دو عظیم باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک تو یہ خوشخبری تھی کہ اہل روم جو کہ اس وقت ایرانیوں کے آگے مغلوب ہوچکے ہیں وہ عنقریب (دس سال سے کم عرصہ میں) دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گئے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 614ء میں خسرو پرویز نے روم کے بادشاہ ہرقل کو شکست فاش دی تھی۔ اس طرح دس سال کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی ہرقل نے اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہوئے 2ہجری (624ء) میں ایرانیوں پر فتح حاصل کرلی۔ اس طرح قرآن مجید کی یہ عظیم پیشین گوئی حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔ عربی زبان میں بضع کا اطلاق دس سے کم پر ہوتا ہے۔
(۔تفہیم القرآن ،جلد سوم ،صفحہ725-727)
دوسری پیشین گوئی اس میں لفظ ”ادنی ” ہے۔ عربی زبان میں ادنیٰ کامعنی اقرب بھی ہے اورنشیب بھی۔ نشیب کے مقابلہ میں بلندی ہوتی ہے۔ گویا ادنی کامعنی ہے نیچا’ یعنی نشیبی علاقہ۔ لہٰذا ”ادنی الارض ”سے مراد نشیبی علاقہ ہے۔ اوراس سے مراد فلسطین کا نشیبی علاقہ ہے۔ یعنی بحیرہ مردار (Dead Sea)، جو سطح سمندر سے 430 میٹر نیچے ہے۔
(اطلس القرآن،ناشر دارلسلام ریاض ،صفحہ 282)
چنانچہ جب زمین کے سب سے نچلے حصہ کی تلاش و تحقیق ہوئی تو وہی مقام نکلا جہاں رومیوں کو لڑائی میں شکست ہوئی تھی۔ اور یہ بحرہ مردار میں وہ جگہ ہے جو دنیا میں سب سے نشیبی یعنی سطح سمندر کے لحاظ سے سب سے پست ترین مقام ہے۔
پروفیسر پالمر (Professor Palmer) امریکہ کے ایک صف اول کے ماہر ارضیات ہیں ان سے مسلمانوں کے ایک گروپ نے ملاقات کے دوران جب ان کو قرآن و حدیث میں موجود سائنسی معجزات کے بارے میں بتایا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ اور جب ان کو مندرجہ بالا آیت کی طرف متوجہ کیا گیا جو زمین کے پست ترین مقام کو ظاہر کرتی ہے تو وہ بہت متعجب ہوئے اور کہا :
دنیا میں اور بھی ایسے مقامات ہیں جو قرآن مجید میں مذکور مقام سے بھی بہت نشیب میں ہیں۔ انہوں نے یورپ اور امریکہ میں ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی اور ان کے نام بھی بتائے۔ ان کو اصراراً بتایا گیا کہ قرآنی معلومات بالکل درست ہیں۔ان کے پاس جغرافیائی کرہ Topographical Globe) ( موجود تھا جو ارتفاع (Elevation) اور نشیب (Depression) بتاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس ارض نما کرہ کے ذریعہ زمین کے پست ترین مقام کی نشاندہی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ارض نما کرہ کو گھمایا تو وہ یروشلم کے نزدیک کے علاقے پر ایک مخصوص نشان پر مرتکز ہو گیا۔ ان کو تعجب ہو اکہ اس علاقے کی جانب ایک علامت ان الفاظ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔
“The lowest Part on the face of the Earth”
”سطح زمین پر سب سے پست ترین مقام ”
(www.ecology.com/…/ earth-at-a-glance-feature)
پروفیسر پالمر نے تسلیم کرلیا کہ آپ (مسلمانوں) کی اطلاعات بالکل درست ہیں، انہوں نے کہا کہ جیسا کہ آپ اس ارض نما کرہ کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ یہی کرہ ارض پر سب سے پست ترین زمینی مقام ہے۔ یہ بحر مردار (Dead Sea) کے علاقے میں واقع ہے۔ اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ارض نما کرہ پر نشان لگا ہوا ہے۔
‘Lowest Point