برمودا تکون، جسے “شیطان کی تکون” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، امریکی ریاست فلوریڈا کے ساحل کے قریب واقع ایک مشہور مقام ہے۔ اس کے بارے میں بہت سی کہانیاں اور افسانے گردش کرتی ہیں کیونکہ یہاں سے گزرنے والی طیارے اور جہاز پراسرار طور پر غائب ہو جاتے ہیں۔

یہ تکون شمالی بحر اوقیانوس کے مغربی حصے میں واقع ہے، اور اس کی حدود تین نکات یعنی برمودا، فلوریڈا، اور پورٹو ریکو پر مشتمل ہیں۔ اس تکون کا ہر پہلو تقریباً ایک ہزار میل پر محیط ہے۔

سائنسدانوں نے دنیا بھر سے اس معمہ کو حل کرنے اور جہازوں اور طیاروں کے غائب ہونے کی وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں کئی کہانیاں اور نظریات سامنے آئے ہیں۔

سب سے پہلے 1492 میں کرسٹوفر کولمبس برمودا تکون کے قریب پہنچا، اور اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں موجود قطب نما غیر معمولی حرکت کر رہا ہے۔ 1840 میں، فرانسیسی جہاز “روزالی” برمودا تکون کے علاقے سے گزر رہا تھا اور اچانک غائب ہوگیا۔ چند مہینوں کی تلاش کے بعد یہ جہاز تکون کے علاقے سے باہر خالی حالت میں ملا، اور یوں اس مقام کے بارے میں کہانیاں اور افسانے بننے لگے۔

1872 میں، “ماری سیلیسٹ” نامی جہاز مشہور ہوا جب یہ جہاز بھی غائب ہوگیا تھا۔ ایک ماہ بعد، یہ جہاز ملا اور اس کے تمام سامان اور خوراک صحیح حالت میں تھے، لیکن عملے کا کوئی سراغ نہ ملا۔

برمودا تکون کے بارے میں کئی نظریات ہیں:

نظریہ اول

یہ کہ اس علاقے میں جزیرہ اٹلانٹس موجود ہے جو اپنے “کریسٹل انرجی” کے ذریعے جہازوں اور طیاروں کو نگل لیتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، یہاں وقت کے گیٹ بھی ہیں جو جہازوں اور طیاروں کو کسی اور زمان و مکان میں منتقل کر دیتے ہیں۔

نظریہ دوم

کچھ سائنسدانوں کے مطابق، یہ ممکنہ طور پر جزر و مد کی لہروں یا مقناطیسی میدان کی غیر معمولی حالت کی وجہ سے ہو سکتا ہے جو نیویگیشن میں مشکلات پیدا کرتی ہیں۔

نظریہ سوم

کہا جاتا ہے کہ اس علاقے میں سمندری لہریں بہت بڑی اور خطرناک ہوتی ہیں جو اچانک نمودار ہو کر بڑے بڑے جہازوں کو ڈبو دیتی ہیں۔

نظریہ چہارم

کچھ افسانے یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ مقام شیطان کا جزیرہ ہے، یا یہاں سے دجال یا یاجوج ماجوج نکلیں گے، اور یہی وجہ ہے کہ یہ مقام “شیطان کی تکون” کے نام سے مشہور ہے۔

نظریہ پنجم

کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کہانیاں محض خیالی ہیں جو کتابوں اور فلموں میں دکھائی جاتی ہیں۔ بہت سے حادثات جو برمودا تکون سے منسوب کیے جاتے ہیں، اصل میں عام سمندری حادثات ہوتے ہیں۔

نظریہ ششم

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر خلا میں جانے والی مخلوقات آتی اور جاتی ہیں کیونکہ یہاں سے فضا کا غلاف کمزور ہے۔

نظریہ ہفتم

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر انسان روشنی کی رفتار سے چلنے والی گاڑی بنا سکے تو وہ برمودا تکون کے ذریعے ماضی میں واپس جا سکتا ہے۔

آخری نظریہ

حالیہ تحقیقات کے مطابق، سمندر کی تہہ میں موجود میتھین گیس کے پھٹنے کی وجہ سے برمودا تکون میں حادثات پیش آتے ہیں۔

برمودا تکون آج بھی ایک بڑا راز ہے اور اس کے بارے میں کئی کہانیاں اور معمہ حل طلب ہیں۔

Similar Posts

Leave a Reply