گلگت بالتستان 3 ڈویژنز اور 14 اضلاع پر مشتمل پاکستان کے شمال میں واقع ایک علاقہ ہے جسے سیاسیات کی زبان میں خود مختار علاقہ Autonomous Region کہتے ہیں۔ گلگت بالتستان کا کل رقبہ 72491مربع کلومیٹر اور آبادی تقریبآ 23 لاکھ ہے۔ دنیا کی 14 بلند ترین پہاڑوں میں 5 گلگت بالتستان میں واقع ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی جو K2 کے نام سے مشہور ہے گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں ہے۔ اس کی بلندی سطح سمندر سے 8611 میٹر ہے جو ماونٹ ایورسٹ سے صرف 237 میٹر کم ہے۔ قراقرم ہائے وے جو دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلاتا ہے وہ بھی گلگت بالتستان سے گزرتا ہے۔ قراقرم ہائے وے کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے جو حسن ابدال سے شروع ہو کر چین کے علاقے کاشغر پر ختم ہوتا ہے۔ قراقرم ہائی وے کا 887 کلومیٹر حصہ پاکستان جبکہ 413 کلومیٹر چائنا میں ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔ اس کی تعمیر پر 1966 میں کام کا آغاز کیا گیا اور 1986 میں 20 سال کے عرصے میں مکمل ہوا۔ ہم نے 7 جولائی 2024 کو گلگت بالتستان کی سیر کا پروگرام ترتیب دیکر صبح 8 بجے تیمرگرہ سے سفر کا آغاز کیا اور وادی کاغان کی یخ بستہ وادیوں میں سے گزر کر رات 10 بجے بڑوائی پہنچے۔ ویلی ان ہوٹل میں رات گزار کر نماز فجر پڑھنے کے بعد ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا۔ ہماری اصل منزل گلگت بلتستان تھا اسلئے وادی کاغان میں زیادہ وقت نہ گزار سکے۔ فطرت جب اپنی رنگینیاں نچاور کرنے لگتی ہے تو انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ بابوسرٹاپ پر ٹمپریچر 2 ڈگری سینٹی گریڈ تھا اسلئے ہم گاڑی سے اترنے کے بعد زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے۔ 8 جولائی کا دن تھا لیکن بابو سرٹاپ کی ٹھنڈی ہواؤں کے سامنے ہمارے ہاتھوں کی انگلیاں اور کان بے بس ہو گئے اسلئے فوری طور پر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلاس کی طرف نکل گئے۔ چلاس گلگت بلتستان کے تیسرے ڈویژن دیامیر کا ڈویژنل اور ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے جو بابوسرٹاپ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بابوسرٹاپ سے یہ سڑک مسلسل اترائی میں انتہائی خطرناک موڑوں سے گزرتی ہوئی جاتی ہے۔ بابوسرٹاپ کی بلندی سطح سمندر 13500 فٹ ہے جبکہ اس کا قریبی شہر چلاس سطح سمندر سے 4000 فٹ کی بلندی پر ہے۔ دونوں علاقوں کے درمیان موسم کی تفاوت کا یہ حال ہے کہ بابوسرٹاپ پر گرم کپڑوں، چادر ٹوپی اور کوٹ پہنے بغیر آپ 3 منٹ گزارا نہیں کر سکتے جبکہ 45 منٹ کے فاصلے پر واقع چلاس کا درجہ حرارت جولائی اور اگست کے مہینے میں اوسطاً 38 ڈگری رہتا ہے۔ قدرت کے اس اختلاف پر انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ 13500 فٹ کی بلندی سے ہم ایک گھنٹے کے سفر پر چلاس اترے۔ اس 1 گھنٹے کے سفر کے بعد ہمیں چلاس شہر میں معلوم ہوا کہ اس شہر کی سطح سمندر سے بلندی 13500 فٹ کے برعکس صرف 4150 فٹ تھی اور درجہ حرارت 2 کے مقابلے میں 38 ڈگری تھا۔ یعنی ہم عمودآ 9 ہزار فٹ یا 3 ہزار میٹر گہرائی میں اتر چکے تھے جہاں گرم ہواؤں اور تیز دھوپ نے ہمارے جسموں کو یکدم ایک نئے اور مختلف ماحول سے مانوس کرایا۔ چونکہ گلگت شہر میں ہمارے پیارے دوست پروفیسر احتشام گل اور پروفیسر فضل الرحمن صاحب ہمارا انتظار کر رہے تھے اسلئے ہم چلاس شہر میں ایک لمحے کیلئے ٹہرے بغیر گلگت کی طرف روانہ ہوئے۔ چلاس سے گلگت کا سفر اگر چہ 122 کلومیٹر تھا لیکن 78 کلومیٹر کے فاصلے پر جگلوٹ کے مقام پر ہم نے ضرور کچھ منٹس کیلئے اترنا تھا۔ جگلوٹ گلگت بالتستان کا وہ مشہور و معروف مقام ہے جہاں دنیا کے تین مشہور پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ، کوہ قراقرم اور کوہ ہندوکش آ کر ملتے ہیں۔ یہاں رک کر ہر انسان آسانی کیساتھ اپنی آنکھوں سے ان تینوں پہاڑی سلسلوں کے تین پہاڑوں کا ایک دوسرے کیساتھ ہم آغوش ہونے کا نظارہ کر سکتا ہے (تصویر ملاحظہ کیجئے)۔ اس مقام پر اسکردو کے راستہ بہتا ہوا دریائے سندھ اور دریائے گلگت، جو دریائے ہنزہ اور دریائے غذر پر مشتمل ہے ملتے ہیں۔ چلاس کی طرف تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے استور بھی دریائے سندھ میں شامل ہو کر اس کا حصہ بن جاتا ہے۔ جگلوٹ پہنچ کر ہم نے تینوں پہاڑی سلسلوں اور دریاؤں کے ملنے کا مشاہدہ کیا اور پھر گلگت شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ گلگت پہنچ کر پروفیسر احتشام گل صاحب کیساتھ پرتکلف اور گلگت کا روایتی کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد احتشام گل صاحب نے پہاڑی برف کا فالودہ کھلا کر ہمیں مزید محظوظ کیا۔ تھوڑی دیر میں پروفیسر فضل الرحمان صاحب بھی تشریف لائے اور گلگت شہر کے وسط میں کوئٹہ کیفے میں بیٹھ کر خوب گپ شپ کی اور اسکردو و بلتستان کی 3 روزہ ٹوور کیلئے پروگرام ترتیب دیا۔ پروفیسر فضل الرحمان اور پروفیسر احتشام گل صاحب نے آدھے گھنٹے کے اندر اندر بالتستان ڈویژن کے تمام کے تمام 5 اضلاع کی سیر کا پروگرام بنا کر ہمیں ان 5 اضلاع میں رہائش اور قیام کی فکر سے آزاد کرا دیا۔ عصر 3:30 بجے ہم گلگت شہر سے اسکردو کی طرف روانہ ہوگئے۔ گلگت سے اسکردو تک کا فاصلہ 200 کلومیٹر ہے۔ اگر چہ چند سال پہلے گلگت سے اسکردو تک مکمل پکی اور اچھی سڑک بنی ہے لیکن یہ سارا راستہ اسکردو روڈ پر ٹھاٹھے مارتے ہوئے دنیا کے دوسرے طویل ترین خوفناک دریا دریائے سندھ کی ہمرکابی میں طے کرنا پڑتا ہے۔ اسکردو کی طرف سے آتے ہوئے دریائے سندھ کی غضبناک موجیں جب دونوں طرف کناروں سے ٹکراتی ہیں تو ایک ہیبت ناک منظر پیدا کرتا ہے جس سے انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کسی اجنبی کیلئے یہ 200 کلومیٹر کا سفر کسی بہت بڑی آزمائش سے کم نہیں۔ سیکنڑوں فٹ گہرے دریائے سندھ کا سارا پانی ریگستانی زمین اور پہاڑوں کی مخصوص سٹرکچر کی وجہ سے انتہائی گدلا ہوتا ہے۔ یہ سارا پانی دور جا کر کہیں تربیلا ڈیم میں فلٹر ہو کر انتہائی صاف اور شفاف بن جاتا ہے۔ رات 9 بجے ہم اسکردو شہر پہنچے۔ سخت تھکاوٹ کی وجہ سے کھانا کھانے کے بعد سو گئے۔ صبح نماز فجر پڑھنے کے بعد پروفیسر احتشام گل، پروفیسر فضل الرحمان اور پروفیسر منصور علی صاحب کے حکم پر ساڑھے نو بجے اسکردو کے سب سے بڑے کالج گورنمنٹ ڈگریپ کالج اسکردو کے سٹاف روم میں جناب پرنسپل اور معزز سٹاف ممبرز کیساتھ علمی اور معلوماتی نشست کی۔ انہوں نے بہترین استقبال کرکے مہمان نوازی کی۔ محترم پرنسپل اور معزز سٹاف سے رخصت لینے کے بعد ہم پروگرام کے مطابق ضلع کھرمنگ میں مشہور آبشار منٹھوکھا روانہ ہوئے۔ اسکردو شہر سے 78 کلومیٹر فاصلے پر واقع اس خوبصورت آبشار تک ہم ڈھائی گھنٹے میں پہنچے۔ انتہائی بلندی سے گرنے والی اس خوبصورت آبشار کے پاس ہم نے دو گھنٹے گزارنے کے بعد واپس اسکردو شہر کی طرف سفر اختیار کیا اور شہر سے باہر ضلع شگر کی طرف جانیوالی سڑک پر مڑ گئے۔ ضلع شگر کے سیر کے مشہور مقامات میں سے شگر کا قلعہ (Shigar Fort)بہت مشہور ہے۔ یہ قلعہ آج سے 400 سال پہلے۔۔۔خاندان کے بادشاہوں نے تعمیر کیا تھا جو آج کل ایک میوزیم کی شکل لئے ہوئے اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سیاح جب گلگت بالتستان سیر کیلئے آتے ہیں تو کسی صورت شگر فورٹ دیکھے بغیر واپس نہیں جاتے۔ اب عصر کے 5 بج چکے تھے۔ شگر فورٹ میں تقریباً 2 گھنٹے گزار کے بعد ہم اسکردو شہر کہ طرف نکلے اور 90 منٹ کے سفر کے بعد اپنی رہائش پہنچ کر نماز عصر پڑھ کر چائے پی لی۔ اب ہماری اگلی منزل شنگریلا ریزورٹ تھا جو اسکردو شہر سے 22 کلومیٹر باہر گلگت روڈ کے بائیں طرف واقع ہے۔ شنگریلا ریزورٹ ہم مغرب کی نماز کے بعد پہنچے۔ چونکہ اگلے دن ہماری منزل دیوسائی نیشنل پارک کے وسیع و عریض میدان، سبزہ زار اور شیوسر جھیل تھی اسلئے شنگریلا میں صرف دو گھنٹے گزارنے کے بعد ہم سیدھا اپنی رہائش کی طرف چل نکلے تاکہ رات کو مناسب آرام کیلئے پورا وقت مل سکے۔ 10 جولائی کی صبح رخت سفر باندھ کر ہم دیوسائی کی طرف چل نکلے۔ دیوسائی کا نقطہ آغاز اسکردو شہر سے 34 کلومیٹر کے فاصلے پر مشرق کی جانب ہے۔ راستے میں تقریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر سدپارہ جھیل آتی ہے۔ یہ ایک مصنوعی جھیل ہے جو بجلی پیدا کرنے کی غرض سے بنائی گئی ہے۔ دیوسائی نیشنل پارک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک 50 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ دیوسائی نیشنل پارک دنیا کی بلند ترین نیشنل پارک ہے جس کا کل رقبہ 3000 مربع کلومیٹر ہے۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک 50 کلومیٹر کا سارا سفر کچی اور پتھریلی سڑک پر مشتمل ہے۔ دیوسائی نیشنل پارک ایک سطح مرتفع ہے جس کے آخری سرے پر ملک کی خوبصورت ترین جھیلوں میں سے ایک جھیل “شیورسر جھیل” واقع ہے۔ سطح سمندر سے شیوسر جھیل کی بلندی 13800 فٹ ہے۔ جھیل کے چاروں طرف لمبے لمبے پہاڑ ہیں جن پر سال کے 11 مہینے برف پڑی رہتی ہے جو پگھل کر پانی کی صورت اختیار کرکے شیوسر جھیل کی طرف بہنے لگتا ہے۔ شیوسر جھیل واحد جھیل ہے جس سے پانی باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اس جھیل میں باہر سے بھی پانی داخل ہونے کا کوئی راستہ نہیں۔ جھیل کے تمام پانی کا واحد ذریعہ جھیل کو چاروں طرف سے گھیرے میں لئے ہوئے برف پوش پہاڑ ہیں جن سے مسلسل پانی نکل کر جھیل میں داخل ہوتا ہے۔ اسکردو شہر سے7 گھنٹے میں 84 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے ہم 5 بجے عصر شیورسر جھیل پہنچ گئے۔ پورے 7 سال پہلے جب ہم 10 جولائی 2017 کو یہاں آئے تھے تو جھیل کے کنارے ہمیں کوئی ہوٹل اور قیام و طعام کی سہولت نہیں ملی لیکن اب 7 سال بعد 10 جولائی 2024 کو یہاں بہت بڑی تبدیلی آئی تھی۔ درجنوں ہوٹل بنے ہیں۔ ٹینٹ اور خیمے وافر مقدار میں کرائے پر دستیاب ہیں، وائی فائی کی سہولت موجود ہے۔ چونکہ ہمارا فجر سے دیوسائی کے میدانوں کے علاوہ بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا اسلئے پہلی فرصت میں وائی فائی کارڈ خرید کر ضروری رابطے کئے اور پھر جھیل کی سیر کرنے نکلے۔ مغرب ساڑھے سات بجے تک ہم جھیل کے پانی، اس کے خوبصورت منظر اور کناروں پر چہل قدمی سے خوب محظوظ ہوئے اور پھر اس خیمے کی طرف بڑھے جہاں ہم نے بیگز اور دیگر سامان رکھا تھا۔ پہلے ہمارا ارادہ اسی پیاری جھیل کے کنارے رات گزارنے کا تھا لیکن جیسے جیسے سورج غروب ہونے لگا تو تقریباً 14000 فٹ کی بلندی پر ٹھنڈی اور ناقابل برداشت ہواووں نے اپنے راج کا اعلان کیا اور ہمارے جسموں پر اچانک تغیر چھانے لگا۔ ہواؤں کی تیزی کیساتھ ساتھ جھیل کی نیلی سطح پر حرکت کرتی ہوئی ایسی لہریں پیدا ہونے لگیں گویا کہ پہاڑ ہیں اور ایک طرف حرکت کرکے بھاگ رہے ہیں۔ تاریکی چھانے کے بعد یہاں پر موجود لوگ اپنے اپنے خیموں کے طرف چل دوڑے اور جھیل کے کنارے مکمل خاموشی چھا گئی۔ چونکہ ہمارے پاس مناسب سامان نہیں تھا اسلئے جھیل کنارے خیمے میں رات گزار نے کا فیصلہ ملتوی کیا۔ اپنے خیمے میں جا کر بیگز وغیرہ نکالے۔ چائے اور وائی فائی کارڈز کی پیمنٹ کرکے مالک سے رخصت لیکر ہم جھیل سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ضلع استور کے چیلم چوکئ نامی گاوں اتر آئے۔ چیلم چوکئی شیوسر جھیل کے 14000 فٹ بلندی کے مقابلے میں 11500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے لیکن گردوپیش میں پھر بھی برف کے مظبوط گلیئشیرز اور تودے پڑے تھے جس سے غضب کی ٹھنڈی ہوائیں اٹھ کر گردوپیش میں پھیل رہی تھیں۔ ہم نے مٹی اور ٹین کے چادروں سے بنے ایک ہوٹل میں دو چھوٹے چھوٹے کمرے بک کرائے اور بھاری کمبل اور رضائیاں لپیٹ کر سو گئے۔ 4 بجے نماز فجر کیلئے اٹھے لیکن خدا خدا کرکے جسم کو بے دم کرنے والے پانی سے وضو بنا کر نماز فجر ادا کی اور ناشتہ استور بازار میں کرنے کا ارادہ کرکے چیلم چوکئ سے سفر کا آغاز کیا۔ استور بازار چیلم چوکئی سے اگر چہ 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن روڈ کی خستہ حالی کی وجہ سے ہم نے یہ فاصلہ 3 گھنٹے میں طے کیا اور استور پہنچ گئے۔ ہماری اگلی منزل اب گلگت بالتستان کی بہت ہی پیاری وادی ہنزہ کی سیر تھا اور ہنزہ کے مشہور شہر کریم آباد تک یہ فاصلہ 190 کلومیٹر تھا اسلئے 9 بجے استور میں ناشتہ کرکے ہم بلا تامل وہاں سے نکلے اور 4 بجے عصر ہنزہ پہنچ گئے۔ شام تک کا وقت ہم نے کریم آباد کے شہر میں چہل قدمی کرتے ہوئے گزارا اور پھر کھانا کھانے کے بعد نماز عشاء پڑھ کر سو گئے۔ اگلی صبح ہماری منزل ہنزہ سے 184 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پاک چائنا بارڈ خنجراب تھا لیکن راستے میں کریم آباد سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر عطاء آباد جھیل (مصنوعی جھیل) پر ضرور رکنا تھا۔ اس جھیل کی کہانی یہ ہے کہ دریائے ہنزہ جو کہ خنجراب کے علاقوں سے روانہ ہو کر گلگت شہر کے قریب دریائے غذر میں گرتا ہے کیساتھ راستے میں مختلف اور بے شمار گلیشئرز سے بہتی ہوئی ندیاں شامل ہو کر ایک بڑے دریا کی صورت اختیار کرتا ہے۔ گلگت سے خنجراب جاتے ہوئے گلگت سے 114 کلومیٹر کے فاصلے پر عطاء آباد نامی گاوں آتا ہے۔ 4 جنوری 2010 کو اسی عطاء آباد گاوں میں ایک پورا پہاڑ سرک کر دریائے ہنزہ پر آ گرا اور پورے دریا کے بہاو کو 4 جو 2010 یعنی پورے 5 مہینے تک روک دیا۔ 24 کلومیٹر سڑک مکمل طور پر زیر آب چلی گئی اور 24 کلومیٹر لمبی اور 110 میٹر گہری جھیل عطاء آباد جھیل کے نام سے وجود میں آ گئی۔ 5 مہینے تک مسلسل دریائے ہنزہ کا پانی اسی جھیل میں جمع ہوتا رہا ور جب اس کی سطح گر کر پڑے ہوئے پہاڑ کے آخری سرے تک پہنچ آئی تو ایک قدرتی سپل وے بن گیا جس کا پانی 3700 مکعب فی سیکنڈ کے حساب سے بہنے لگا جس سے قریبی علاقے گلمت Gulmit اور دوسرے گاوں بڑی حد تک متاثر ہوئے۔ ہنزہ بالا کے لوگ پہاڑ گرنے اور اور سڑک کا 24 کلومیٹر زیر آب آنے کی وجہ سے پاکستان سے کٹ چکے تھے اور خشکی کا کوئی دوسرا راستہ سڑک کی صورت میں موجود نہ تھا اسلئے انہوں کشتیاں منگوا کر اس کے ذریعے آمد و رفت شروع کی۔ 2010 ہی میں پاکستان کی حکومت نے چائنا کی مدد سے سڑک کی بحالی پر کام شروع کیا اور 38 مہینے کی مدت میں 7 کلومیٹر پر مشتمل 5 ٹنلز تعمیر کئے۔ 5 ٹنلز کیساتھ ساتھ سڑک کی تعمیر پر 5 سال کا عرصہ لگا اور یوں 2015 میں خشکی کا راستہ بحال ہوا۔ عطاء آباد جھیل اب پاکستان کے علاوہ دنیا کی مشہور جھیل بن چکی ہے جس میں سینکڑوں کشتیاں چلتی ہیں۔ درجنوں ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور کیفیاں بنی ہیں اور پاکستان کے علاوہ بیرونی دنیا سے سیاح بڑے شوق سے یہاں آتے ہیں۔ فجر کا وقت تھا، آسمان بالکل صاف تھا، دھوپ نکلی ہوئی تھی اور ہم ساڑھے سات بجے عطا آباد جھیل پہنچ گئے۔ پانچووں ٹنلز میں سے گزر کر ان کا خوب نظارہ کیا۔ جھیل کے پانی اور خوبصورتی سے محظوظ ہوئے اور پھر خنجراب کی طرف عازم سفر ہوئے۔ چونکہ سڑک پکی اور زبردست تھی اسلئے ہم عطا آباد سے ڈیڑھ گھنٹے کے ڈرائیو کے بعد خنجراب بارڈر پہنچ گئے۔ پاک چائنا بارڈ خنجراب کا علاقہ بہت ہی خوبصورت اور سرسبز و شاداب ہے لیکن چونکہ سطح سمندر سے بلندی بہت ہی زیادہ یعنی 15600 فٹ ہے اسلئے ہر طرف برف ہی برف کا راج تھا۔ بارڈر کے قریب جا کر لوہے اور ٹین سے بنے ہوئے بیرک کے سامنے ایک فوجی جوان سے دعا سلام کے بعد میں نے کچھ معلومات حاصل کیں۔ بیرک کے اوپر تازہ برف پڑی تھی۔ پوچھنے پر فوجی جوان نے بتایا کہ یہ آج ہی کی رات پڑ گئی ہے۔ پاک چائنا بارڈر پر واہگہ بارڈر کی طرح پاکستان اور چائینیز فوج کے پریڈ کا کوئی منظر ہم نے نہیں دیکھا اور نہ ہی دو چاق و چوبند سیکیورٹی گارڈز کے آسمان کی طرف ٹانگیں اٹھانے کے مقابلے کا کوئی سین نظر آیا۔ چونکہ شدید سردی تھی، آکسیجن کی کمی تھی، اٹماسپیرک پریشر بہت ہی کم تھا اسلئے میرے سر میں شدید درد پیدا ہوا۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا کہ سر کی رگیں پھٹنے والی ہے۔ میرے پاس بیگ میں موجود میڈیسن کے استعمال کے باوجود درد میں کوئی کمی نہیں آئی اسلئے گھنٹہ دو گھنٹے سیر کرنے کے بعد ہم نے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ اب کے بار ہمارا پروگرام عصر 5 بجے سے پہلے پہلے ہنزہ کریم آباد میں دو پرانے اور مشہور قلعوں التت بالتت کی سیر کا تھا لیکن راستے میں سوست کے مقام پر ہم رک گئے۔ سست گلگت بالتستان کا وہ مشہور ٹاؤن ہے جہاں پر چائنا سے پاکستان کی طرف آنے والی درآمدات کیلئے ایک بہت بڑا ڈرائی فورٹ (خشک گودی) بنایا گیا ہے جہاں بڑے بڑے ٹرکوں سے سامان اتار کر ڈمپ کیا جاتا ہے جسے پھر ملک کے مختلف حصوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ چونکہ سر درد کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اسلئے ایک ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد میری نظر ہئیر ڈریسر کی دکان پر پڑی اسلئے وہاں جا کر حجام صاحب سے درد کی شدت کم کرنے کیلئے سر کو مشینی مالش کی گزارش کی۔ اگر چہ مشین اس کے پاس موجود نہیں تھی لیکن ہاتھوں کے ذریعے سر، گردن اور بالوں کو پریس کرنے کے بعد سامنے والے ہوٹل سے ادرک کی چائے پینے کا مشورہ دیا۔ سر کو پریس کرنے اور ادرک کی چائے پینے کی دیر تھی کہ درد ایسا غائب ہوا اور مجھے محسوس ہوا گویا کہ میری آنکھوں کو نئی بینائی عطا کی گئی ہے۔ ہیئر ڈریسر اور ہوٹل کے مالک کا شکریہ ادا کرنے کے بعد چونکہ قریبی مسجد میں نماز جمعہ کا پروگرام بالکل تیار تھا اسلئے سیدھے وہاں پہنچ کر جمعہ کی نماز پڑھی اور کریم آباد کی طرف چل نکلے۔ سوست سے کریم آباد کا فاصلہ 90 کلومیٹر ہے۔ یہ فاصلہ محض 90 منٹس میں طے کرنے کے بعد ہم کریم آباد پہنچ گئے اور 3 گھنٹے تک التت اور بلتت کے دونوں قلعوں کی مفصل سیر کی۔ بلتت قلعہ آج سے 1200 سال جبکہ التت کا قلعہ 1100 سال پہلے تعمیر کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی طور پر ان قلعوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے UNESCO نے انہیں 2011 میں “ایشیا فیسیفک ہیریٹیج فار کلچرل ہیریٹیج کنزرویشن ایوارڈ” سے نوازا ہے۔ اس کیساتھ ساتھ ان دونوں قلعوں کی 1100 اور 1200 سالا تاریخ ان کی اہمیت کو چار چاند لگانے کیلئے کافی ہے۔
شام 6 بجے کے قریب ہم دونوں قلعوں کی سیر سے فارغ ہو چکے تھے۔ ہمیں واپس دیر پہنچنے کیلئے 700 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا تھا اسلئے کریم آباد سے 6 بجے نکل کر ہم گلگت شہر پہنچ آئے۔ گلگت میں رات گزاری اور فجر کی نماز اور ناشتے سے فارغ ہو کر دیر کی طرف نکل گئے۔۔۔۔
گلگت بالتستان میں بہترین راہنمائی، مہمان نوازی اور خلوص و محبت کیلئے ہم پروفیسر احتشام گل صاحب، پروفیسر فضل الرحمان صاحب، پروفیسر منصور علی صاحب، گورنمنٹ ڈگری کالج اسکردو کے پرنسپل پروفیسر۔۔۔ صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں۔ سابقہ ڈائریکٹر ایجوکیشن محترم جناب اخونزادہ ہدایت اللہ صاحب اور ان کے فرزند زوہیب حسن صاحب کی گلگت شہر میں زبردست مہمان نوازی پر بے حد شکر گزار ہیں۔ پورے سفر کے ساتھیوں پروفیسر ڈاکٹر ظہیر احمد صاحب، پروفیسر محمد ثاقب صاحب اور پروفیسر سلیم اللہ یوسفزئ صاحب کے عزم اور استقامت کو بھی میں سلام پیش کرتا ہوں۔ اپنے پیارے دوست اور ڈرائیور خان نواب کا پرخار و پر اسرار راستوں پر انتہائی سنجیدہ اور ماہرانہ ڈرائیونگ پر بھی میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ہوں۔ اللہ تعالٰی کے خصوصی مہربانی سے ہم 9 دنوں میں 3000 کلومیٹر سفر کا دورانیہ مکمل کرکے عصر 6 بجے تیمرگرہ میں داخل ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔۔