سلطان قطب الدین ایبک۔۔۔۔
1150ء میں ترکستان (ترک، ترکی پھر ترکیہ) کے غریب گھر میں پیدا ہونے والے قطب کے گھرانے کا ایک غلاموں پر مشتمل “ایبک” نامی قبیلے سے تھا۔ دور جہالت تھا، ابھی لڑکپن ہی تھا، والدین نے اپنے سے جدا کر کے نشاپور میں لگنے والی غلاموں کی منڈی میں بولی لگا کر اسے بیچ ڈالا، اسے آگے فخرالدین عبد العزیز کوفی، قاضی، تاجر اور ابوحنیفہ کی اولاد میں سے ایک نے خرید لیا۔
گھر پہنچ کر قاضی نے بچے سے اس کا نام ہوچھا، کمسن غلام نے نام بتانے سے انکار کر دیا:
” اگر نام بتا دیا تو یہ میرے نام کی توہین ہو گی، اب آپ کا غلام ہوں، جس نام سے پکاریں گے، وہی میرا نام ہو گا”
قاضی کو بچے سے ایسے جواب کی امید نہیں تھی حیرت ہوئی اور اس کا جواب اچھا لگا کہ ابھی بچہ ہے، غلام ہے، عزت نفس کا کتنا احساس رکھتا ہے۔ رحمدل قاضی نے مشقت لینے کی بجاے اس کی اچھی تربیت، تعلیم اور پرورشں کرنے کا فیصلہ کیا اور چھوٹے غلام پر خاص توجہ دی۔
بچہ شروع سے ہی بہادر تھا، جنگجوانہ مشاغل کھیلنے سے شوق رکھتا۔ بہت کم عرصے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری، تلوار، نیزہ بازی اور تیراندازی میں مہارت حاصل کر لی۔ قاضی غلام کی صلاحیتیں دیکھ کر حیران رہ جاتا۔
سلطان شہاب الدین غوری، غزنی کا شہنشاہ، ایک روز شاہی گھڑ دوڑوں کا مقابلہ دیکھ رہا تھا۔ قاضی غلام کو لے کر سلطان کے پاس پہنچ گیا:
” سرکار، ساری سلطنت میں اس غلام کا گھڑ سواری میں کوئی مقابل نہ ثانی ملے گا”
سلطان خوبصورت، صحت مند، سانولہ، پرکشش رنگت والے نوجوان غلام کو دیکھ کر مسکرایا۔ جنگلی گھوڑا وحشی تصور کیا جاتا یے، جسے تربیت دینا مشکل ترین کام یے۔ غلام سے پوچھا:
” گھوڑے کو کتنا تیز دوڑا سکتے ہو؟”
غلام نے نہایت ادب کے ساتھ جواب دیا:
” حضور, گھوڑے کو تیز دوڑانے میں کوئی مہارت نہیں، اصل مہارت اسے اپنا تابع بنانا ہے”
سلطان نے ستائشگی سے غلام کو دیکھا، ایک بہترین گھوڑے کی لگام غلام کے ہاتھ میں تھما دی۔ وہ اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ گیا، کچھ دور دوڑا کر واپس لے آیا، انتہائی انوکھی بات یہ ہوئی کہ گھوڑا واپسی پر اپنے سُموں کے جن نشانات پر چل کر گیا تھا، انہیں قدموں واپس لایا۔ یہ سب دیکھنے والوں کے لئیے نہایت ناقابل یقین تھا، اس سے پہلے ایسی مہارت کبھی کسی میں دیکھی گئی تھی۔ سلطان غلام کی مہارت سے نہایت متاثر ہوا۔ جو جانور کو اپنا تابع و مطیع بنا سکتا ہے اس کے لئیے انسانوں کو فرمانبردار بنانا مشکل نہیں ہو گا
سلطان نے اسی وقت غلام کو منہ بولے دام دے کر مصایب خاص میں شامل کر لیا۔
ایک روز سلطان دربار میں بیٹھا خوش ہو کر غلاموں کو تحائف تقسیم کر رہا تھا، غلام خاص نے وہ تمام ضعیف غلاموں میں بانٹ دئیے۔ سلطان یہ دیکھ کر اسے مزید پسند کرتے اعلیٰ ترین عہدے ” امیر خور” پر ترقی دے دی، پھر شاہی اصطبل کا سربراہ مقرر کر دیا جہاں سینکڑوں مال بردار اور جنگی تربیت یافتہ گھوڑوں کو ہمہ وقت سلطنت کی حفاظت کرنے کی تربیت دی جاتی تھی۔ غلام نے رفتہ رفتہ قدرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کا سکہ سلطان پر بٹھا کر اس کا مزید قرب حاصل کر لیا۔
1192ء کو سلطان محمد غوری نے دہلی اور اجمیر فتح کیا 42 سالہ غلام کو پہلے یہاں کا گورنر اور پھر شاہی افواج کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ اگلے سال نوجوان غلام سپہ سالار نے سلطان کے حکم پر پڑوسی دشمن قنوج پر چڑھائی کر دی، پہلے سے بڑھ کر سپہ گری کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ سلطان نے غلام کو اپنا فرزند بنا کر “فرمان فرزندی” کے اختیارات دے دئیے اور دو میں سے ایک نایاب ترین قیمتی سفید ہاتھی اسے انعام میں دیا۔
یہ وہ دور تھا جب اسلام اپنے عروج پر اور سارا یورپ جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبا پڑا تھا۔ اسلامی تاریخ کا ایک بہادر غلام سپہ سالار، قطب الدین ایبک پھر وہ عظیم حکمران بنا جس نے دہلی فتح کر کے یہاں سب سے پہلی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی۔ یہاں سے غلام قطب الدین کا ستارہ چمکتا رہا، اس کی افواج گجرات، راجپوتانہ، گنگا جمنا، دوآبہ، بہار اور بنگال میں اسلام کا سبز پرچم لہراتی داخل ہو گئیں۔
15 مارچ 1206ء کو سلطان محمد غوری کو جہلم کے قریب گکھڑوں قبیلے کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا ہڑا، غلام پاس نہیں تھا، یہ مارا گیا۔
23 جون 1206ء کو لاہور میں ایبک کی تخت نشینی کا اعلان کر دیا گیا۔ قطب الدین ایبک کی زندگی کا سارا زمانہ فتوحات میں گزرا، کبھی شکست نہیں کھائی۔ تخت پر بیٹھ کر سب سے پہلے عظیم ترین سلطنت پر توجہ دی۔ بیشتر وقت نوزائیدہ اسلامی سلطنت کا امن و امان قائم رکھنے میں گزرا۔ عالموں کا قدر دان، فیاضی اور داد و درویشی سے تاریخ میں “لکھ بخش” کے نام سے مشہور ہوا۔
یکم نومبر 1219ء لاہور میں چوگان (پولو) کھیلتے گھوڑے سے گر کر راہ ملک عدم ہوا، انار کلی بازار لاہور کے ایک کوچے ایبک، اب ایبک روڈ میں دفنا دیا گیا۔
از، کتاب “خدا اور میں”